عقائد اسلامیہ کی معرفت سے قبل چند ایسی بنیادی اور ضروری باتوں کا جاننا از حد ضروری ہے، جس کا تعلق انسان کے حقائق اشیا کو سمجھنے سے ہے؛ تاکہ یقینی طور پر عقائد کی حقانیت کو تسلیم کیا جا سکے اور انسان کا ایمان عصر حاضر کے عقل پسندی کے دور میں عقل کے قریب ہو سکے ، اس طرح وہ ایمان اور اس کےلوازمات کو تقلیدی تصور نہ کر کے اسے اپنے فہم و ادراک سے سمجھ سکے۔
اس کے لیے عقلی اور منطقی طریقہ سے علم و معرفت کے باب میں انسان کی رسائی کہاں تک ممکن ہوئی ؟ اور کائنات کے وہ کونسے سر بستہ راز ہیں ، جن تک انسان کی رسائی ہو سکتی ہے اور کہاں وہ عاجز ہوتا ہے۔
انسان کی قوت ادراکیہ :
اللہ کی مخلوق میں انسان سب سے ذہین (Smart ) مخلوق ہے، اس کے علم کا کوئی کنارہ نہیں، وہ ہمیشہ غیب الغیوب کی تلاش میں ہوتا ہے ، اللہ نے اسے زبردست قوت ادراکیہ سے نوازا ہے ، مگر انسان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ جن حقائق کا ادراک کرنا چاہتا ہے، اس کے ذرائع کا تعلق خارجی دنیا سے ہوتا ہے۔
علم معرفت اور حقیقت کے ادراک کے جو ذرائع ہیں، جس کے ذریعہ انسان خارجی دنیا سے منسلک ہوتا ہے، وہ حواس خمسہ ١- قوت بصارت(دیکھنی کی طاقت) .۲- قوت سماعت (سننے کی طاقت)۔۳- قوت شامه(سونگھنے کی طاقت)۔ ۴- قوت ذائقہ(چکھنے کی طاقت) ۔۵- قوت لامسہ (چھو کی محسوس کرنے کی طاقت)ہیں ۔
انہیں حواس خمسہ کی وجہ سے انسان کے اندرون میں مختلف کیفیتیں پیدا ہوئی ہیں۔ مثلاً اپنی پسند کی چیز دیکھ کر یا سن کر یا چکھ کر یا چھو کر یا سونگھ کر رضا مندی اور خوشی کی کیفیت اور ناپسند ہو تو غضب اور ناراضگی یا محبت یا کراہت وغیرہ کا اظہار، غرض یہ کہ حواس خمسہ جیسے حقائق خارج سے داخل کی طرف جتنی مقدار میں منتقل کرتے ہیں؟ ویسے ہی کیفیت اتنی مقدار میں انسان کے داخل پر اثر انداز ہوئی، انہیں حواس کے ذریعہ انسان غور فکر و تدبر کر سکتا ہے، اس میں تحلیل و تجزیہ کا سلسلہ پیدا ہوتا ہے، وہ چیزوں کو جوڑنے پر قادر ہوتا ہے ، وہ عام اصول وضوابط بنانے پر قادر ہوتا ہے ۔ کسی چیز کو دیکھتا ہے تو اس جیسی یا اس سے بہتر چیز بنانے کی کوشش کرتا ہے، لہذا حواس کے
ذریعہ خارجی مدد کے بغیر انسان ذرہ برابر کچھ نہیں کر سکتا۔
ذیل میں دی جارہی چندمثالوں سے ہم اس بات کو خوب اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔
جولوگ ماں پیٹ سے نابینا پیدا ہوتے ہیں ، چاہے آپ کتنی کوشش اور جتن کر لیں انہیں رنگ ہر گز نہیں سمجھا سکتے ، وہ سفید ، لال، ہرا، پیلا، کالا ، ان رنگوں کو نہ کسی مثال سے نہ کسی اور طریقہ سے سمجھ سکتےہیں؛ کیوں کہ اس کا تعلق بصارت اور دیکھنے سے ہے، وہ دیکھے بغیر ہرگز نہیں سمجھ سکتا۔
اسی طرح جو مادر زاد بہرے ہوتے ہیں، وہ آواز کو نہیں سمجھ سکتے ، چاہے کتنے ہی ذہین و فطین کیوں نہ ہو، اس لیے کہ قوت سماعت سے وہ محروم ہیں۔ اور صوت کا تعلق قوت سماع سے ہے ۔
اسی طرح کسی چیز کے ذائقہ کے بارے میں ہم میں سے کوئی بھی اس وقت تک کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا، جب تک اسے چکھ نہ لے۔ معلوم ہوا کہ حواس خمسہ کے بغیر انسان کو کسی بھی چیز کا علم حاصل نہیں ہو سکتا، گویا نفس بشری کا اس کا ئنات سے علمی معرفت کا تعلق ، حواس خمسہ پر موقوف ہے ۔ اگر حواس خمسہ نہ ہو تو وہ مکمل جہل باطنی کا شکار ہوگا۔ جیسے ظاہری علم ، حواس خمسہ کے بغیر ممکن نہیں ؛ اسی طرح باطنی علم کا تعلق بھی کچھ نہ کچھ درجہ حواس سے ہے؛ اگر حواس خمسہ کا صحیح استعمال نہ ہو تو انسان اپنے خالق اور خود اپنی حقیقت سے بھی نابلد رہتا ہے۔ اسی لیے قرآن کریم نے ایسے لوگوں کو "صم بكم عمى فهم لا يرجعون "کہیں ان شر الدواب عند الله الصم البكم الذين لایعقلون "کہا؛ کہیں "صم بكم عمى فهم لا يعقلون” کہا۔
ہمارے حواس خمسہ محدود ہیں :
اگر چہ ہماری معرفت اور علم کا مدار حواس خمسہ پر ہے؛ مگر حواس خمسہ میں کمال نہیں، بل کہ وہ محدود ہیں، اس لیے کہ ہمارے ارد گرد پیش آنے والی بہت سی چیزوں کا ہمیں ادارک نہیں ہو پاتا مثلاً موسم کا ٹیمپریچر کتنا ہے؟ اسی طرح بدن کا پریشر کتنا ہے؟ ہوا کی رفتار کتنی ہے، اس کو معلوم کرنے کے لیے ہمیں آلات کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔
حواس کے حدود
دکھنے اور نہ دکھنے والی چیزیں :
خوش قسمتی سے آج سائنس نے ترقی کر کے بہت سی ایسی چیزیں بناڈالی ہیں، کہ ان کے وجود سے مادیت اور اس کے نتیجہ میں مادی اور الحادی نظریہ کی تردید ہو جاتی ہے، قدیم زمانہ میں تو ایک دانشور یہ کہہ سکتا تھا کہ جس چیز کا انسانی حواس ادراک نہیں کر سکتا ، اس کو قبول نہیں کیا جاسکتا، لیکن آج سائنس کی ترقی سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے۔ اس دنیا میں دیکھی جانے والی اور درک ہونے والی چیزوں سے زیادہ وہ چیزیں ہیں، جن کو دیکھا اور درک نہیں کیا جاسکتا۔
عالم طبیعت میں اس قدر موجودات ہیں کہ انھیں حواس میں سے کسی کے بھی ذریعہ درک نہیں کیا جا سکتا اور ان کے مقابلہ میں درک ہونے والی چیزیں صفر شمار ہوتی ہیں!
نمونہ کے طور پر چند چیزیں آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:
١:علم فیز کس کہتا ہے کہ رنگوں کی سات قسموں سے زیادہ نہیں ہیں ، جن میں سے پہلا سرخ اور آخری جامنی ہے، لیکن ان کے ماوراء ہزاروں رنگ پائے جاتے ہیں، جن کو ہم درک نہیں کر سکتے ، اور یہ گمان کیا جاتا ہے کہ بعض حیوانات ان بعض رنگوں کو دیکھتے ہیں ۔
اس کی وجہ بھی واضح اور روشن ہے، کیوں کہ نور کی لہروں کے ذریعہ رنگ پیدا ہوتے ہیں، یعنی آفتاب کا نور دوسرے رنگوں سے مرکب ہو کر سفید رنگ کو تشکیل دیتا ہے اور جب جسم پر پڑتا ہے تو وہ جسم مختلف رنگوں کو ہضم کر لیتا ہے اور بعض کو واپس کرتا ہے، جن کو واپس کرتا ہے وہ وہی رنگ ہوتا ہے، جس کو ہم دیکھتے ہیں، لہذا اندھیرے میں جسم کا کوئی رنگ نہیں ہوتا۔ دوسری طرف نور کی موجوں کی لہروں کی شدت اور ضعف کی وجہ سے رنگوں میں اختلاف پیدا ہوتا ہے اور رنگ بدلتے رہتے ہیں ، یعنی اگر نور کی لہروں کی شدت فی سیکنڈ ۴۵۸ ہزار ملیارڈ تک پہنچ جائے تو سرخ رنگ بنتا ہے اور ۷۲۷ ہزار ملیارڈ لہروں کے ساتھ جامنی رنگ دکھائی دیتا ہے، اس سے زیادہ لہروں یا کم لہروں میں بہت سے رنگ ہوتے ہیں، جن کو ہم نہیں دیکھ پاتے۔
٢-آواز کی موجیں ۱۶ / مرتبہ فی سیکنڈ سے لے کر ۲۰۰۰ مرتبہ فی سیکنڈ تک ہمارے لئے قابل فہم ہیں، اگر اس سے کم یا زیادہ ہو جائیں تو ہم اس آواز کو نہیں سن سکتے۔
٣- امواج نور کی جن لہروں کو ہم درک کر سکتے ہیں، انھیں ۴۵۸ ہزار
ملیارڈ فی سیکنڈ سے ۷۲۷ ہزار ملیارڈ فی سیکنڈ تک کی حدود میں ہونا چاہئے ، اس سے کم یا زیادہ چاہے فضا میں کتنی ہی موجیں موجود ہوں ، ہم ان کو درک نہیں کر سکتے۔
٤-یہ بات سب جانتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے جانداروں ( وائرس اور بیکٹریاز ) کی تعداد انسان کی تعداد سے کہیں زیادہ ہیں، اور بغیر کسی دور بین کے دیکھے نہیں جا سکتے ، اور شاید اس کے علاوہ بہت سے ایسے چھوٹے جاندار پائے جاتے ہیں جن کو سائنس کی بڑی بڑی دور بینوں کے ذریعہ ابھی تک نہ دیکھا گیا ہو۔
٥-ایک ایٹم اور اس کی مخصوص باڈی اور الکٹرون کی گردش، نیز پروٹن کے ذریعہ ایک ایسی عظیم طاقت ہوتی ہے ، جو کسی بھی حس کے ذریعہ قابل درک نہیں ہے، حالانکہ دنیا کی ہر چیز ایٹم سے بنتی ہے، اور ہوا میں بمشکل دکھائی دینے والے ایک ذرۂ غبار میں لاکھوں ایٹم پائے جاتے ہیں۔ گزشتہ دانشوروں نے جو کچھ ایٹم کے بارے میں نظریہ پیش کیا تھا، وہ صرف تھیوری کی حد تک تھا، لیکن کسی نے بھی ان کی باتوں کو نہیں جھٹلایا۔
لہذا اگر کوئی چیز غیر محسوس ہے تو یہ اس کے نہ ہونے پر دلیل نہیں ہے، آپ دیکھیے دنیا میں ایسی بہت سی چیزیں بھری پڑی ہیں ، جو غیر محسوس ہیں جن کو ہمارے
حواس درک نہیں کر سکتے !
جیسا کہ ایٹم کے کشف سے پہلے یا ذرہ بینی ( چھوٹی چھوٹی چیزوں) کےکشف سے پہلے کسی کو اس بات کا حق نہیں تھا کہ ان کا انکار کرے، اور ممکن ہے کہ بہت سی چیزیں ہمارے لحاظ سے مخفی ہوں اور ابھی تک سائنس نے ان کا کشف نہ کیا ہو؛ بلکہ بعد میں کشف ہوں تو ایسی صورت میں ہماری عقل اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ان شرائط ( علم کا محدود ہونا اور مختلف چیزوں کے درک سے عاجز ہونے ) کے تحت ہم ان چیزوں کے بارے میں نظریہ پیش کریں کہ وہ چیزیں ہیں یا نہیں ہیں۔
خلاصہ یہ کہ ہمارے حواس اور دوسرے وسائل کا دائرہ محدود ہے؛ لہذا ان کے ذریعہ ہم عالم کو بھی محدود ما نیں۔
انھیں چیزوں میں سے ہوا بھی ہے ، جو ہمہ وقت ہمارے چاروں طرف موجود رہتی ہے اور اس قدر وزنی ہے کہ ہر انسان ۱۶ ہزار کلوگرام کے برابر اس کو برداشت کر سکتا ہے، اور ہمیشہ عجیب و غریب دباؤ میں رہتا ہے؛ البتہ چونکہ یہ دباؤ اس کے اندرونی دباؤ کی وجہ سے ختم ہوتا رہتا ہے؛ لہذا اس دباؤ کا ہم پر کوئی اثر نہیں پڑتا ، جب کہ کوئی بھی انسان یہ تصور نہیں کرتا کہ ہوا اس قدر وزنی ہے۔
” گلیلیو ” اور ” پاسکال ” سے پہلے کسی کو ہوا کے وزن کا علم نہیں تھا اور اب جبکہ سائنس نے اس کے وزن کی صحت کی گواہی دے دی، پھر بھی ہم اس کا احساس نہیں کرتے. انھیں غیر محسوس چیزوں میں سے "اٹر” ہے کہ بہت سے دانشوروں نے ریسرچ کے بعد اس کا اعتراف کیا ہے، اور ان کے نظریہ کے مطابق یہ شئ تمام جگہوں پر موجود ہے اور تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے، بل کہ بعض دانشور تو اس کو تمام چیزوں کی اصل مانتے ہیں اور اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ اٹر ایک بے وزن اور بے رنگ چیز ہے اور اس کی کوئی بو بھی نہیں ہوتی ، جو تمام ستاروں اور تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے اور تمام چیزوں کے اندر نفوذ کئے ہوئے ہے،لیکن ہم اسے درک کرنے سے قاصر ہیں۔ البتہ یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہم یہ دعویٰ کرنا چاہتے ہیں کہ جس طرح سے الکٹرون،
پروٹون یا دوسرے رنگ سائنس نے کشف کئے ہیں تو سائنس مزید ترقی کر کے بعض مجہول چیزوں کو کشف کرلے گی ، اور ممکن ہے کہ ایک روز ایسا آئے کہ اپنے ساز وسامان کے ذریعہ عالم ماورائے طبیعت کو بھی کشف کرلے!
جی نہیں ، اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے؛ جیسا کہ ہم نے کہا کہ "ماورائے طبیعت ” اور "ماورائے مادہ ” کو مادی وسائل کے ذریعہ نہیں سمجھا جاسکتا، اور یہ کام مادی اسباب و ساز و سامان کے بس کی بات نہیں ہے۔
مطلب یہ ہے کہ جس طرح بعض چیزوں کے کشف ہونے سے پہلے ان کے بارے میں انکار کرنا جائز نہیں تھا اور ہمیں اس بات کا حق نہیں تھا کہ یہ کہتے ہوئے انکار کریں کہ فلاں چیز کو چوں کہ ہم نہیں دیکھتے ؛ جن چیزوں کو دنیاوی ساز و سامان کے ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا ، یا وہ سائنس کے ذریعہ ثابت نہیں ہیں؛ لہذا ان کا کوئی وجود نہیں ہے، اسی طرح سے ماورائے طبیعت کے بارے میں یہ نظریہ پیش نہیں کر سکتے کہ اس کا کوئی وجود نہیں ہے، لہذا اس غلط راستہ کو چھوڑ نا ہوگا اور خدا پرستوں کےدلائل کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا اس کے بعد اپنی رائے کے اظہار کا حق ہوگا اس لئے کہ اس صورت میں واقعی طور پر اس کا نتیجہ مثبت ہوگا *۔
تحریر: مولانا حذیفہ غلام محمد وستانوی