درس عقائد (۱) – عقیدہ کا تعارف واہمیت

اس پهلي قسط اور پهلے درس ميں هم تمهيد اس كے بعد عقيده كے معنيٰ ،تعارف ،اس كي ضرورت، اهميت ،افاديت اور غفلت كے نقصانات كو جانيں اور پڑھيں گے۔

                شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَالْمَلائِكَةُ وَأُوْلُواالْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ لا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ۔ [آل عمران:18] قال بعد ذلك: إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الإِسْلامُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَمَنْ يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ۔ [آل عمران:19].

تمهيد:

                معززقارئين! يه دور فتنوں كا دور هے،هر طرف سے هر طرح كے فتنے سر اٹھارهے هيں ،حق و باطل آپس ميں گڈ مڈ هوئے جارهے هيں، لوگ اسلام كے نام پر اسلام سے دور هورهے هيں،گويا فرمان ِنبي ﷺ’’بَادِرُوا بِالأَعْمَالِ فِتَنا كَقِطَعِ اللَّيْلِ الْمُظْلِمِ. يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيْهَا مُؤْمِناً وَيُمْسِي كَافِراً. أَوْ يُمْسِي مُؤْمِناً وَيُصْبِحُ كَافِراً. يبيع دينه بعرض من الدنيا(مسلم)صادق آرها هےكه صبح كے وقت انسان مسلمان هوگا اور شام هوتے هوتے كافر ،شام كے وقت مسلمان هوگا اور صبح هوتے هوتے كافر۔

                در اصل جتنے بھي فتنے هيں ،وه ان دو چيزوںكےدرميان دائر هيں :1علمي فتنه۔ 2عملي فتنه۔

                علمي فتنه شبهات كا فتنه هے اور عملي فتنه شهوات كا فتنه هے۔ايك كا تعلق عقائد سے هے اور ايك كا اعمال سے۔ 

                بس اسي وجه كر اس زمانے ميں كم علمي كي وجه كر قرآن و حديث كے صحيح مفهوم كو نه سمجھنے اور اكابر متقي علماكي تشريحات سے احتراز وانكار كي وجه كر نت نئے نظريات جنم لے رهے هيں۔ انسان اپني خواهشات اور سهوليات كو ديكھتے هوئے نفساني نظريات كو قبول كيے جارها هے،نيز ملحدين ، مشركين ،يهود ونصاري ٰ كي دجالي ترقيات سے مرعوب هو كر ماديت ميں فلاح كو تلاش كر رها هے ؛غر ض اس طرح كي بهت ساري چيزيں هيں ،جس كي وجه كر ارتداد ،الحاد ،اور جديديت كا طوفان ٹھاٹھيں مار رها هے۔اس وقت جس طرح كي آزمائشوں كا سامنا هے ،اس كي تاب وهي لوگ لا سكتے هيں جنهوں نے اهل سنت والجماعت كي كشتي ميں پناه لي هو،جنهوں نے عقيدهٴ صحيحه كو نه صرف جانا هو بل كه مانا هو،اس ليے اس وقت هم اهل ِمدارس و علما كي ذمے داري بنتي هے كه هم امت كي هر طرح سے رهنمائي كريں ،انهيں باطل كے سامنے سيسه پلائي ديوار بناديں ،عقائد كے لائن سے انهيں اس قدر مضبوط كرديں كه وه كسي طرح كے شبهات ميں مبتلا نه هوں،اور بڑي سي بڑي آزمائش كا آساني سے مقابله كر سكيں۔ الله جزائے خير دے جامعه اور مولانا حذيفه صاحب وستانويؔ كو جو شب وروز اسي فكرميں رهتے هيں اور امت كي هر لائن سے رهبري كے ليے كوشاں هيں ۔اسي كوشش كي يه ايك كڑي آپ كي خدمت ميں پيش هے۔

آپ ﷺ كي تعليمات:

                رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ابدی اور سرمدی پیام حیات لے کر آئے، اٹل فیصلے اور محکم قوانین لے کر جلوہ گر ہوئے ،الٰہی تعلیمات اور ربانی احکام کے ساتھ مردہ دلوں کو حیات نو کا مژدہ جانفزا سنانے آئے ،ظلمت خانوں کے لئے روشنی کا چراغ بن کر آئے ،خرافات ،اختراعات اور بدعات کی جگہ، سنہری اور عمدہ دستورزند گی لائے ، دین اسلام کی بنیا د انہی ہدایت وتعلیمات پر رکھی گئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لائے۔

عقیدہ کے معانی : 

                عقائد عقیدہ کی جمع ہے ۔لفظ عقیدہ عقد سے بنا ہے ، جس کا معنی ہے گرہ لگانا ، باندھنا ، عقیدہ کا معنی ہوا گرہ لگائی ہوئی ، باندھی ہوئی چیز۔

                 (2) دو چیزوں کا باندھنا ، پکا کرنا ، عہد و پیمان کرنا (مخزن)۔

                 (3) اعتقاد کا لفظ اسی سے ہے ، جس کا معنی تصدیق کرنا ، نہایت پختہ ارادہ رکھنا ، دین بنانا۔

                معلوم ہوا عقید ہ انسان کے عزم صمیم ، اراد ۂ کامل ، پختہ اور اٹل نظریات و خیالات کا نام ہے ، جو انسان کے قلب ودماغ پر حکمرانی کرتا ہے اور یہی عقیدہ انسان کے اعمال کا محرک ہوتا ہے ، عقیدہ کی مثال ایک بیج کی ہے اور عمل کی مثال اس بیج سے اگنے والے پودے کی ہے ، ظاہر ہے کسی پودے میں وہی خصوصیات ہوتی ہیں، جو اس کے بیج ميں هو، بیج عمدہ اور درست ہوگا تو پودا بھی عمدہ ہوگااور اگر بیج ہی ناقص ہوئی، تو اس سے ایک تناور درخت یا خوب صورت پودا کیسے تیار ہو سکتا ہے ؟ اسی طرح اگر انسان کا عقیدہ درست ہوگا ، تو اعمال بھی درست ہوں گے اور جب عقیدہ خراب ہوگا تو پھر اعمال کا خراب ہونا واضح ہے ۔

عقیدہ کا اثر:

                چوںکہ عقیدہ وایمان کا تعلق انسان سے ہے اور انسان صرف گوشت ،پوست اور ہڈیوں کا نام نہیں ہے ؛بل کہ ظاہری جسامت او ربناوٹ کے ساتھ ساتھ اس کے خیالات و نظریات کو بھی اس میں شامل سمجھنا چاہیے، کوئی انسان نظریات سے خالی نہیں ہے یہ الگ بات ہے کہ کسی کا اعتقاد ونظریہ مادی اور مالی اسباب پر ہے اور کسی کا صرف اللہ تعالیٰ کے فرمودات وارشادات پر ،انسان کے دماغ میں کچھ خیالات ابھرتے ہیں، جو رفتہ رفتہ انسانی قلب پر نقش ہوجاتے ہیں۔ انسانی جسم کے ڈھانچے میں ’’دل‘‘ (قلب) ایک اہم کردار ادا کرتاہے اور یہی دل خیر وشر، نیکی وبدی کا سرچشمہ ہوتاہے، اگر دل میںنیکی کرنے کا جذبہ پیدا ہوجائے تو انسان نیک کام کر تاہے۔ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کاارشاد گرامی ہے :

                 ’’الا وان فی الجسد مضغۃ اذا صلحت صلح الجسد کلہ و اذا فسدت فسد الجسد کلہ الا وھی القلب‘‘۔

  (بخاری شریف)

                جسم ِانسانی میں گوشت کا ایساٹکڑا ہے، اگر وہ درست ہے تو سارا جسم درست ہے اور اگر اس میں فساد ہے تو سارے جسم میں فساد ہے ،ہاں اور وہ ٹکڑا ’’دل‘‘ہے ۔

عقیدہ کی اہمیت اور اس کا مقام:

                اسلام کے عقائد کی مثال بڑی عجیب ہے حضرت نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مثال ایک محل سے دی ہے۔ ظاہر ہے کہ محل یاعمارت کسی ایک چیز کو نہیں کہا جاسکتا، صرف چھت کو محل نہیں کہا جاسکتا اسی طرح اللہ کی بتائی ہوئی کسی ایک بات کو مان کر باقی سب کے انکا ر کو ایما ن نہیں کہا جاسکتا۔ اللہ نے جوجو احکام دئیے ان میں سے کسی کی حیثیت محل کی اساس کی ہے ،کسی کی محل کی، کسی کی دیواروں کی، کوئی ستون کی حیثیت رکھتا ہے اور کوئی چھت کی اور کوئی ظاہر ی ٹیپ ٹاپ کی ، گویا ایمان اور اسلام ایک محل ہے اور باقی تمام چیزیں مل کر محل بناہے۔ قصرِ اسلام میں جو جو احکامات اساس وبنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں، انہیں کو ایمانیات اور عقائد کہا جاتاہے۔

اسلامی عقائد کیا ہیں؟  

                 حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات دو قسم کی ہیں۔ ایک وہ جن کا تعلق عقائد سے ہے ،دوسری جن کا تعلق اعمال سے ہے۔ اب یہ دیکھناہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی بنیاد واساس اصلاح ِعقائد تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے بیشتر حصہ میں انسانی عقائد کی اصلاح پر زور دیا ،چو ںکہ عقائد کی اصلاح بہت ضروری ہے، انسان کے عمل میں کمزوری اللہ تعالیٰ معاف فرمادیںگے، عمل نہ کرنے سے انسان کافر نہیں ہو جا تا؛ لیکن عقیدہ کی کمزوری اللہ تعالیٰ کے یہاں نا قابل معا فی ہے ۔

                جس انسان کا عقیدہ خراب ہوگا، اس کا کوئی بھی عمل بارگاہ ِالٰہی میں مقبول ومنظورنہیں ہوگا ۔ عقائدکے باب میں کسي کو مانا جائے اور کسي کو نہ مانا جائے یہ انتہائی ناپسندیدہ اور مذموم حرکت ہے ،یہ یہودیوں کا طریقہ تھا ،جو بعض باتوں کو تسلیم کرتے تھے اور بعض کا صاف انکار کر دیتے تھے۔ اپنے مطلب ومنشاء کی بات کو سینہ سے لگایا اور اسے مسترد کردیا جس سے ان کے موقف وخیال پر چوٹ پڑتی تھی ۔یہاں سے یہ معلوم ہوا کہ نومن ببعض ونکفر ببعض (ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کا انکار کرتے ہیں) کی بجائے اٰمنا وصدقنا کهاجائے کہ ہم اللہ کے تمام احکامات کی بجا آوری کریں گے، تمام تعلیمات پر عمل پیراہوں گے، تمام ہدایات کی روشنی میں کام کریں گے ،من مانیوں سے اجتناب و احتراز کریں گے اسی میں نجات وفلاح ہے ۔

اسلامی عقائد سے عمومی غفلت اور اس کا انجام :

                دین اسلام میں عقائد کی بڑی اہمیت ہے بلکہ انھیں بنیادی حیثیت حاصل ہے کہ یہ دین کی بنیادیں ہیں اور ان کی مثال جڑوں کی سی ہے۔ عقائد کی اہمیت اور ضرورت کا تقاضا یہ ہے کہ ہر مسلمان عقائد کی درستی کی بھر پور کوشش کرتے ہوئے انھیں اولین حیثیت دے اور ان کو سیکھنے میں ذراسی بھی غفلت کا مظاہرہ نہ کرے۔ لیکن آجکل افسوس ناک صورتحال یہ دکھائی دیتی ہے کہ بہت سے مسلمان اپنے دین کے بنیادی اور اہم عقائد سے بھی ناواقف ہیں، بلکہ غفلت کا عالم یہ ہے کہ یہ احساس ہی دلوں سے مٹتا چلا جارہا ہے کہ عقائد درست کرنے اور سیکھنے کی بھی کوئی ضرورت ہے ! یہی حال عصری تعلیمی اداروں کا بھی ہے کہ ان میں پروان چڑھنے والی ہماری نوجوان نسل اپنے دین کے ضروری عقائد سے بھی نابلد رہتی ہے۔اس ساری تشویش ناک صورتحال کا جو خطرناک انجام سامنے آنالازمی تھا وہ یہ ہے کہ ہمارے مسلمانوںمیں الحادی اور کفریہ عقائد غیر محسوس انداز سے پھیلتے چلے جارہے ہیں اور وہ ملحدین اور متجددین کے گمراہ کن نظریات کا شکار ہوتے جارہے ہیں، جس کے نتیجے میں فکری ارتداد غیر محسوس انداز سے پھیلنے لگا ہے۔ اسی طرح اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد بر حق کے خلاف بھی مسلسل مہم جاری ہے؛ تاکہ مسلمانوں کو حق جماعت اہل السنۃ والجماعة سے ہٹا کر گمراہی کی راہ پر لگایا جاسکے ۔ اس کے ضمن میں یہ بات بھی نہایت ہی تشویش ناک ہے کہ جب موجودہ مسلمانوں کا یہ عالم ہے تو بعد میں آنے والی نسلوں کے عقائد کا تحفظ کیسے ہو سکے گا !اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ اگر ہر مسلمان اپنے دین کے بنیادی عقائد سیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کرےتو ان فتنوں سے بخوبی حفاظت ہو سکتی ہے۔

عقائد کی درستی کی ضرورت و اہمیت :

                عقائد کی درستی کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ :1۔ دین اسلام میں عقائد کی مثال بنیادوں اور جڑوں کی ہے، جبکہ اعمال کا درجہ شاخوں کا ہے۔2- عقائد مقدم ہیں اعمال پر ، اس لیے عقائد کی درستی اعمال سے زیادہ اہم اور ضروری ہے۔3۔ عقائد سے اعمال وجود پاتے ہیں ، اس لیے اگر عقائد درست ہوں تو ان کی وجہ سے درست اعمال وجود پائیں گے، لیکن اگر عقائد غلط ہوں تو ان کے نتیجے میں غلط اعمال ہی وجو د پائیں گے۔ 4۔ کفر اور اسلام کا فیصلہ عموما عقائد ہی کی بنیاد پر ہوتا ہے ، اسی طرح حق اور گمراہی کا فیصلہ بھی عقائد ہی کی بنیاد پرہوتا ہے۔5۔ اہل السنۃ والجماعۃ میں شامل ہونے یا گمراہ ہونے کا تعلق بھی عموما عقائد ہی کے ساتھ ہے۔ 6۔ عقائد کے بگاڑ کی وعید اور سزا اعمال کے بگاڑ سے زیادہ ہے، حتی کہ کفر اور شرک کی صورت میں تو دائمی جہنم نصیب ہوتی ہے، اللہ تعالی حفاظت فرمائے۔ 7- عقائد کی درستی وحدت اسلامی کو قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے، جبکہ عقائد کا بگاڑ وحدت کو پارہ پار ہ كر دیتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ امت کے تمام جلیل القدر اہل علم اور بزرگانِ دین سب سے زیادہ عقائد کی درستی پر زوردیتے ہیں۔

عقائد سیکھنے کے فوائد :

                عقائد سیکھنے کے متعدد فوائد سامنے آتے ہیں جیسے :. عقائد میں اللہ تعالی کی ذات وصفات ، رسالت، آسمانی کتب اور آخرت جیسے اہم امور سے متعلق علم حاصل کیا جاتا ہے ، اور چوں کہ یہ امور اہمیت کے حامل ہیں اس لیے ان سے متعلق علم حاصل کرنا بھی اہمیت رکھتا ہے۔

  • عقائد سیکھنے سے کفر و اسلام اور حق و باطل کی پہچان نصیب ہو جاتی ہے اور ان سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔
  • عقائد سیکھنے سے ایمانیات کا علم ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے ایمان کی حفاظت آسان ہو جاتی ہے۔
  • عقائد سیکھنے سے اہل حق اور اہل السنۃ والجماعة کی پہچان اور ان میں شمولیت نصیب ہو جاتی ہے۔
  • عقائد سیکھنے سے اپنے عقائد کے درست ہونے پر اطمینان نصیب ہو جاتا ہے۔
  • عقائد سیکھنے سے ملحدین، متجددین اور دیگر گمراہ افراد کے فتنے سے بچنا آسان ہو جاتا ہے۔
  • عقائد سیکھنے سے دین کی بنیاد اور جڑیں مضبوط ہو جاتی ہیں۔
  • عقائد سیکھنے سے دنیا اور آخرت کی کامیابی عطا ہوتی ہے۔

خلاصه: اس درس ميں هم دور پر فتن ميں عقيده سے وابستگي كي ضرورت كو سمجھيں گے۔ديني گمراهيوں سے خود كو بچانے كي فكر پيدا كريں گے۔اهل سنت والجماعت جو ناجي وفلاح پانے والي جماعت هے ،اس كے عقيدے سے وابسته هونے كا عزم كريں گے۔عقيدے كے معنيٰ كو جانيں گے۔ عقيدے كے تعلق سے كيے جاننے والي غفلتوں سے خو د كو نكاليں گے۔ عقيدے كي ضرورت ،اهميت وافاديت كو جان كر مكمل عقيدے كو سيكھنے كا عزم مصمم كريں گے ۔ ان شاء الله

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔