آج كے درس ميں:
ضرورتِ وحي كا اسلامي دعويٰ كس حد تك درست هے؟
عقل دھو کہ دینے والی ہے :
بہن سے نکاح خلاف عقل نہیں :
بہن اور جنسی تسکین :
نسب کا تحفظ کوئی عقلی اصول نہیں :
استلذاذبالا قارب بھی ہیومن ارج (Human Urge) کا حصہ ہے :
وحی الہی سے آزادی کا نتیجہ :
ضرورتِ وحي كا اسلامي دعويٰ كس حد تك درست هے؟
اب دیکھنا یہ ہے کہ اسلام کا یہ دعوی کہ عقل کے ذریعہ ساری باتیں معلوم نہیں کی جاسکتیں ، بلکہ آسمانی ہدایت اوروحی الہی کی ضرورت ہے، پیغمبروں اور رسولوں کی ضرورت ہے، آسمانی کتابوں کی ضرورت ہے، اسلام کا یہ دعوی ٰہمارے موجودہ معاشرے میں کسی حد تک درست ہے؟
عقل دھو کہ دینے والی ہے :
آج کل عقل پرستی (Rationalism) کا بڑا زور ہے اور کہا جاتا ہے کہ ہر چیز کو عقل کی میزان پر پرکھ کر اور تول کر اختیار کریں گے؛ لیکن عقل کے پاس کوئی ایسا لگا بندھا ضابطہ (Formula)اور کوئی لگا بندھا اصول (Principle) نہیں ہے، جو عالمی حقیقت (Universal Truth)ركھتا هو، جس کو ساری دنیا کے انسان تسلیم کر لیں اور اس کے ذریعہ وہ اپنے خیر و شر اور اچھائی اور برائی کا معیار تجویز کر سکیں ۔ کون سی چیز اچھی ہے ؟ کون سی چیز بُری ہے؟ کون سی چیز اختیار کرنی چاہئیے؟ کون سی چیز اختیار نہیں کرنی چاہئے؟ یہ فیصلہ جب ہم عقل کے حوالے کرتے ہیں تو آپ تاریخ اٹھا کر دیکھے جائیے ، اس میں آپ کو یہ نظر آئے گا کہ اس عقل نے انسان کو اتنے دھو کے دیئے ہیں، جس کا کوئی شمار اور حد و حساب ممکن نہیں۔ اگر عقل کو اس طرح آزاد چھوڑ دیا جائے تو انسان کہاں سے کہاں پہنچ جاتاہے ۔ اس کے لئے میں (مفتي محمد تقي عثماني)تاریخ سے چند مثالیں پیش کرتا ہوں ۔
بہن سے نکاح خلاف عقل نہیں :
آج سے تقریباً آٹھ سو سال پہلے عالمِ اسلام میں ایک فرقہ پیدا ہوا تھا، جس کو باطنی فرقہ اور ’’قرامطہ‘‘ کہتے ہیں۔ اس فرقے کا ایک مشہور لیڈر گزرا ہے، جس کا نام عبید اللہ بن حسن قیروانی ہے۔
اس نے اپنے پیروکاروں کے نام ایک خط لکھا ہے، وہ خط بڑا دل چسپ هے جس ميں اس نے اپنے پیرو کاروں کو زندگی گزارنے کے لئے ہدایات دی ہیں۔ اس میں وہ لکھتا ہے:
’’میری سمجھ میں یہ بے عقلی کی بات نہیں آتی ہے کہ لوگوں کے پاس اپنے گھر میں ایک بڑی خوبصورت ، سلیقہ شعار لڑکی بہن کی شکل میں موجود ہے اور بھائی کے مزاج کو بھی سمجھتي ہے، اس کی نفسیات سے بھی واقف ہے؛ لیکن یہ بے عقل انسان اس بہن کا ہاتھ اجنبی شخص کو پکڑا دیتا ہے۔ جس کے بارے میں يه بھی نہیں معلوم کہ اس کے ساتھ نباہ صحیح ہو سکے گا یا نہیں؟ وہ مزاج سے واقف ہے یا نہیں؟ اور خود اپنے لئے بعض اوقات ایک ایسی لڑکی لے آتے ہیں جو حسن و جمال کے اعتبار سے بھی ، سلیقہ شعاری کے اعتبار سے بھی ، مزاج شناسی کے اعتبار سے بھی ،اس بہن کے ہم پلہ نہیں ہوتی ۔
میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ اس بے عقلی کا کیا جواز ہے کہ اپنے گھر کی دولت تو دوسرے کے ہاتھ میں دیدے۔ اور اپنے پاس ایک ایسی چیز لے آئے جو اس کو پوری راحت و آرام نہ دے۔ یہ بے عقلی ہے۔ عقل کے خلاف ہے۔ میں اپنے پیروؤں کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اس بے عقلی سے اجتناب کریں اور اپنے گھرکی دولت کو گھر ہی میں رکھیں۔‘‘
(الفرق بين الفرق للبغدادى، ص ۲۹۷ ، وبيان مذاهب الباطنية للديلمي، ص: ۸۱)
بہن اور جنسی تسکین :
اور دوسری جگہ عبید اللہ بن حسن قیروانی عقل کی بنیاد پر اپنے پیروؤں کو یہ پیغام دے رہا ہےوہ کہتا ہے کہ:
’’کیا وجہ ہے کہ جب ایک بہن اپنے بھائی کے لئے کھانا پکا سکتی ہے، اس کی بھوک دور کر سکتی ہے، اس کی راحت کے لئے اس کے کپڑے سنوار سکتی ہے، اس کا بستر درست کر سکتی ہے تو اس کی جنسی تسکین کا سامان کیوں نہیں کر سکتی؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ یہ تو عقل کے خلاف ہے۔‘‘
((الفرق بين الفرق للبغدادى، ص ۲۹۷ ، وبيان مذاهب الباطنية للديلمي، ص: ۸۱)
عبید اللہ بن حسن قیروانی كاعقلی جواب ناممکن ہے :
آپ اس کی بات پر جتنی چاہے لعنت بھیجیں، لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ خالص ايسي عقل کی بنیادپر، جو وحی الہی کی رہنمائی سے آزاد ہو، جس کو وحی الہی کی روشنی میسر نہ ہو، اس عقل کی بنیاد پر آپ اس کے اس استدلال کا جواب دیں۔ خالص عقل کی بنیاد پر قیامت تک اس کے اس استدلال کا جواب نہیں دیا جا سكتا۔
عقلی اعتبار سے بداخلاقی :
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ یہ تو بڑی بداخلاقی کی بات ہے، بڑی گھناؤنی بات ہے، تو اس کا جواب موجود ہے کہ یہ بداخلاقی اور گھناؤنا پن یہ سب ماحول کے پیدا کردہ تصورات ہیں۔ آپ ایک ایسے ماحول میں پیدا ہوئے ہیں جہاں اس بات کو معیوب سمجھا جاتا ہے اس لئے آپ اس کو معیوب سمجھتےہیں۔ ورنہ عقلی اعتبار سے کوئی عیب نہیں ۔
نسب کا تحفظ کوئی عقلی اصول نہیں :
اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ اس سے حسب و نسب کا سلسلہ خراب ہو جاتا ہے ،تو اس کا جواب موجود ہے کہ نسبوں کا سلسلہ خراب ہو جاتا ہے تو ہونے دو۔ اس میں کیا برائی ہے؟ نسب کا تحفظ کون سا ایسا عقلی اصول ہے کہ اس کی وجہ سے نسب کا تحفظ ضرور ي هو۔
استلذاذبالا قارب بھی ہیومن ارج (Human Urge) کا حصہ ہے :
اگر آپ اس استدلال کے جواب میں یہ کہیں کہ اس سے طبی طور پر نقصانات ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ اب یہ تصورات سامنے آئے ہیں کہ استلذاذ بالا قارب (Incest) سے طبی نقصانات بھی ہوتے ہیں۔
لیکن آپ کو معلوم ہے کہ آج مغربی دنیا میں اس موضوع پر کتابیں آ رہی ہیں کہ استلذاذبالا قارب (Incest) انسان کی فطری خواہش (Human Urge) کا ایک حصہ ہے۔ اور اس کے جو طبی نقصانات بیان کیے جاتے ہیں، وہ صحيح نہیں ہیں۔ وہی نعرہ جو آج سے آٹھ سو سال پہلے عبید اللہ بن حسن قیروانی نے لگایا تھا، اس کی نہ صرف صدائے بازگشت سنائی دے رہی ہے بلکہ آج مغربی ملکوں میں اس پر کسی نہ کسی طرح عمل بھی ہو رہا ہے۔
وحی الہی سے آزادی کا نتیجہ :
یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ اس لئے کہ عقل کو اس جگہ استعمال کیا جارہا ہے جو عقل کے دائرہ کار (Jurisdiction) میں نہیں ہے۔ جہاں وحی الہی کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ اور عقل کو وحی الہی کی رہنمائی سے آزاد کرنے کا يه نتیجہ ہے کہ برطانيه کی پارلیمنٹ ہم جنس پرستی (Homo Sexuality) کے جواز کابل تالیوں کی گونج میں منظور کر رہی ہے۔اور اب تو با قاعدہ یہ ایک علم بن گیا ہے۔ میں ایک مرتبہ اتفاق سے نیو یارک کے ایک کتب خانہ میں گیا۔ وہاں پر پورا ایک علیحدہ سیکشن تھا، جس پر یہ عنوان لگا ہوا تھا کہ گے اسٹائل آف لائف (GAY STYLE OF LIFE) تو اس موضوع پر کتابوں کا ایک ذخیرہ آچکا ہے اور باقاعدہ ان کی انجمنیں ہیں، ان کے گروپ اور جماعتیں ہیں ، اور وہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں ۔ اس زمانے میں نیو یارک کا میئر (Mayor) بھی ایک Gay تھا۔
نوٹ :مذكوره تحرير مفتي محمد تقي عثماني صاحب كي كتاب اسلام اور هماري زندگي جلد نمبر:1 صفحه نمبر:49-52 سے ماخوذ هے۔جس سے هم بڑي آساني سے سمجھ سكتے هيں كه اگر عقل كو آزاد چھوڑ ديا جائے تو نظام عالم كيا سے كيا هو جائے گا اور آج اس عقل پرستي كے دور ميں كثرت سے هم اس كا مشاهده كر رهے هيں۔گويا انساني عقل اسي وقت تك صحيح معنوں ميں عقل كي مصداق هے جب تك وه وحي الهي كے تابع هے ،اس سے آزاد هو كر انسان كا جو امتياز هے وه ختم هو جائے گا اور وه بس جانوروں ميں ايك پڑھا لكھا جانور هوگا جو انسانيت همدردي خير خواهي كے جذبے سے عاري خواهشات نفس كا پجاري اپنے فائدے اور خواهش كي تكميل كے ليے دوسروں كي خواهش ،عزت ،يهاں تك كه زندگي سے بے پرواه هوگا ،جس كا هم كھلي آنكھوں آج مشاهده كر رهے هيں۔
ان شاء الله اگلے درس ميں كچھ ايسي ضروري باتيں جانيں گے جس سے عقل پرستي كے نقصانات هميں مزيد كھل كر سمجھ ميں آ جائيں گے۔