آج كے سبق ميں :
- عالم غیب اور عالم شہادت ۔
- آثار اور علامتوں سے غیر محسوس کا ادراک۔
- انسان کی روح اور اس کے وجود پر ایمان ۔
- نظام كائنات وجود خالق اور وحدانيت رب كي دليل هے ۔
عالم غیب اور عالم شہادت
جن چیزوں کا ادراک ہم اپنے حواس کے ذریعہ کرتے ہیں ، انہیں مادی اشیا کہا جاتا ہے، اس لیے کہ ہم اس کا ادراک اپنے حواس کے ذریعہ کرتے ہیں، جن چیزوں کا ادراک حواس سے ہوتا ہے، اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ، ہاں مگر یہ کہ کوئی ان حواس سے محروم ہو۔ جس دنیا میں ہم زندگی گزار رہے ہیں، اس میں بے شمار وہ چیزیں ہیں جس کا ادراک ہم نہیں کر پاتے ہیں، جب کہ وہ چیزیں واقعتاً موجود ہیں اور ہمیں اس کے وجود کا یقین ِکامل بھی ہے ، البتہ وہ ہماری نظروں سے اوجھل ہیں، تو ہم اسے امور غیبیہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور بعض تو ایسی چیزیں بھی ہیں جو مادی ہیں؛ البتہ ہمارے ذرائع علم کے محدود ہونے کی وجہ سے وہ ہمیں نظر نہیں آتیں ، اگر ہمیں ایسے آلات ہاتھ لگ جائیں، جو اس کا مشاہدہ کرواسکیں تو ہمارے لیے اس کا دیکھنا آسان ہو جاتا ہے، پھر جب ہمارے لیے مادی اشیا کا دیکھنا آسان ہو جاتا ہے، تو اس کی مدد سے امور غیبیہ (Metaphysics) کا سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔
آثار اور علامتوں سے غیر محسوس کا ادراک :
بہت ساری ایسی بنیادی چیزیں ، جو خود ہم انسانوں سے متعلق ہیں؟ اگرچہ وہ ہمیں نظر نہیں آتیں؛ مگر اس کے وجود پر اتنی علامتیں اور نشانیاں ہوتی ہیں کہ اس کا انکار محال ہو جاتا ہے اور ہمیں یقین کی حد تک اسے تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ بہت دورجانے کی ضرورت نہیں ، خود ہماری روح ہی کو دیکھ لیتے ہیں۔
انسان کی روح اور اس کے وجود پر ایمان :
ہر جاندار میں روح ہے ، مگر اتنی ترقی کے باوجود آج تک کسی نے اسے دیکھا نہیں؛ جب کہ جاندار کی زندگی اور حیات کا مکمل مدار اسی پر ہے۔ روح کو نہ دیکھا جاسکتا ہے، نہ چھوا جا سکتا ہے، نہ سونگھا جاسکتا ہے، نہ چکھا جاسکتا ہے، مگر اس کے وجود کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں، بل کہ اسی روح کی وجہ سے ہمارے حواس خمسہ کام کرتے ہیں۔ اس لیے ہم خوشی ،غم اور تکلیف سب محسوس کرتے ہیں۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اسے کیوں یقینی اور قطعی طور پر مانتے ہیں ، تو اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ہمارے اندر اس کے وجود کی اتنی علامتیں اور نشانیاں ہیں کہ ہمارے لیے روح کو تسلیم کرنا ایک نارمل (Normal) اور بدیہی امر ہو گیا ہے۔ اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ہمارے اس عالم ؛ بل کہ کائنات میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کو ہم اس کی نشانیوں کی وجہ سے مانتے ہیں۔
مزید اسے ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں:
مثلاً لو ہے کہ بنے ہوئے دو ٹکڑے بالکل ایک جیسے ہوں ، مگر ایک میں مقناطیس ہو اور دوسرے میں نہ ہو تو ہم اپنے حواس کے کسی بھی ذرائع سے اس کی تمیز نہیں کر سکتے،الا یہ کہ مقناطیس والا ٹکڑا جب کسی لوہے کی چیز کو اپنی طرف كھینچ لے، جب وہ کھینچے تب ہم عقلی اعتبار سے فیصلہ کر سکتے ہیں کہ اس میں مقناطیس ہے اور دوسرے میں نہیں۔
مذکورہ دو مثالوں سے معلوم ہوا کہ کائنات میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں، جن کا ادراک اگر چہ ہم اپنے حواس سے نہیں کر سکتے ؛ باوجود کہ وہ بالکل بدیہی ہوتی ہیں، مگر آثار و قرائن اور علامتوں سے عقلی طور پر اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ گو یا انسان کے اندر پایا جانے والا وجدان ، فطری شعور سے عقلی استدلال کی بنیاد پر کسی غائب شئی کے وجود کو بدیہی طور پر تسلیم کرنے پر آمادہ کرتا ہے، وہ اس کے وجود کو تسلیم کر لیتا ہے، مگر اس کی حقیقت تک اسے رسائی حاصل نہیں ہوتی ؛ جب کہ روح جیسی بدیہی چیز کو ماننا انسان پر لازم ہو جاتا ہے؛ باوجود یہ کہ وہ اس کی حقیقت سے نا واقف رہتا ہے، جو عالم غیب کی ایک ادنیٰ شکل ہے تو پھر انسان عالم غیب کی دیگر بڑی بڑی چیزوں کو عالم شہادت پر قیاس کر کے کیسے ادراک کر سکتا ہے، جب کہ ہمارے حواس کا عالم ِغیب سے رابطہ کی کوئی شکل نہیں ۔
مذکورہ تفصیل سے معلوم ہوا کہ انسان جو اپنے آپ کو بہت ترقی یافتہ تصور کرتاہے اور قدرت سے مقابلہ کے بارے میں بھی سوچتا ہے، مگر وہ اب تک اپنی روح کی حقیقت سے واقف نہیں ہو سکا، جس پر اس کی زندگی کا مدار ہے، البتہ وہ قرائن سےروح کے وجود کو امریقيني تصور کرتا ہے ۔ اسی طرح اس عظیم کائنات کے خالق کوتسلیم کرنے کے مسئلہ میں اگر چہ حواس ادراک نہیں کر سکتے ہیں۔ لیکن کا ئنات کا منظم نظام ، اس کے حیرت انگیز اسرار و رموز ہمیں عقلی طور پر آمادہ کرتے ہیں کہ ہم خالق کوتسلیم کریں اور اس کے نظر آنے یا محسوس ہونے کی بحث میں نہ پڑیں، اور اس کےوجود پر ایمان لے آئیں اور اسی حقیقت کے حصول کی فکر کریں ؛ اسی حقیقت الٰه کی فکرِ معرفت کے لیے اللہ نے ایک مزید ذریعہٴ علم یعنی وحی کا سلسلہ شروع کیا۔
جسے ان شاء الله هم اگلے سبق ميں جانيں گے۔